حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لذتوں کو کاٹنے والی کو بہت یاد کرو۔" رواہ الترمذی

Ahadees List 3 in Urdu ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~احادیث لسٹ٣




 فہرست نمبر ١              فہرست نمبر ٢               فہرست نمبر ٣               فہرست نمبر ٤

Fazeelat wali dua




فضیلت والی دعا

حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کی کہ مجھے کوئی دعا دکھا دیجئے کہ میں اپنی نماز میں وہ دعا کیا کروں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی:"اے اللہ بے شک میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کئے ہیں اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔ اے اللہ! اپنے پاس سے مجھے مغفرت عطا کر اور مجھ پر رحمت فرما، کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔" 

Fazool sawalat se bachne ka hukam




فضول سوالات سے بچنے کا حکم

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگوں میں ہمیشہ فضول سوالات کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے۔ پس جس کو اس طرح کے سوال سے واسطہ پڑے وہ یہ کہ کر بات ختم کر دے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے۔" (رواہ البخاری و مسلم)

یعنی ایسے سوالات میں اُلجھنے کی بجائے یہ سیدھا راستہ ہے کہ ان کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرے اور بات کو ختم کر دے وگرنہ ایسے سوالات انسان کو شیطانی وساوس کاشکار بنا دیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی صورت میں مومن اللہ کی پناہ مانگے اور ان (وساوس) سے اپنے آپ کو روک لے۔

Fazail ilm e Deen




فضائل علمِ دین

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما دیتے ہیں۔" (متفق علیہ)

تشریح:قرآن و حدیث میں فضائل وغیرہ کے سلسلہ میں جس علم کا ذکر ملتا ہے، اس سے مرد صرف کتاب اللہ اور  سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے یعنی علم دین و شریعت! اس علم کے حصول کے لئے کچھ مبادیات اور مددگار علوم کی بھی ضرورت پیش آتی ہے، مثلاً صرف ،نحو،لغت وغیرہ، لہذا یہ مبادیات بھی اس مقصد کے ساتھ دینی شمار ہوں گی۔ ویسے اصل دینی علم کا تعلق عقائد، اعمال،اخلاق اور حقوق و فرائض سے ہے، جس کی مدد سے انسان اپنی زندگی احکام الٰہی کے مطابق بسر کر کے اپنی عاقبت سنوار سکتا ہے۔

Farz rozah bila uzer terk kerna




فرض روزہ بلا عذر ترک کرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے بلا عذر یا بلا مرض ایک روزہ بھی ترک کیا ساری عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے۔" (رواہ البخاری)

Faraiz ki pabandi karein aur hudood se aage na barhein




فرائض کی پابندی کریں اور حدود سے آگے نہ بڑھیں

"حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ روایت کرتےفرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے (بہت سے) فرائض مقرر فرمائے ہیں  لہٰذا تم ان کو ضائع نہ کرو اور اس نے (بہت سی)حدود مقرر فرمائی ہیں لہٰذا تم ان سے آگے نہ بڑھو اور (بہت سی)چیزوں کے کرنے کو اس نے حرام فرمایا ہے لہٰذا ان کا ارتکاب مت کرو اور اس نے تم پر رحم کھاتے ہوئے بہت سی چیزوں  (کی حلت و حرمت)سے خاموشی اختیار فرمائی ہے اور یہ خاموشی اس کی طرف سے بھولنے کی وجہ سے نہیں لہٰذا تم ان کو مت کریدو ۔" (دار قطنی)

مثبت طور پر فرائض جو اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں ان کا التزام کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے  بعض اشیاء حرام فرما دی ہیں اور باقی معاملہ مباح کا ہے جس میں مزید تنگی پیدا کرنا مطلوب نہیں ہے۔ 

Fajar ki sunnaton ki fazeelat



فجر کی سنتوں کی فضیلت

"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ جل شانہ نے تمہارے لئے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے اور یہ دو رکعتیں ہیں نماز فجر سے پہلے۔" (اخرجہ البیھقی)

سنن اور نوافل میں واقعی صبح کی سنتوں کی خاص فضیلت ہے۔ اس لئے سفر میں بھی ان سنتوں کو ادا کرنے کی بہت ترغیب ہے۔ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرنا چاہئے۔

Dajjal Aur Dajjaliat ki Haqeeqat by Dr. Israr Ahmed

Jerusalem in Quran



Mashriq e Wustaa: Teesri aalmi jang ka medan


Read online/Download 


Mashriq e Wustaa: Teesri aalmi jang ka medan

Ahadees se to yeh bat sarahat se maloom hoti hi he keh in jangon ka medan mashriq e wusta
bane ga, aalmi halaat aur waqiaat bhi aik arsa se isi janib ishara ker rehe hein keh aainda jang e azzeem yeni is sadi ki teesi aalamgir jang europe mein nahi, mashriq e wusta mein lari jaey gi. ab zahir he keh is ilaqe mein mojud ummat e muslimah yeni ummat e Muhammad S.A.W.W. ka afzal ter hissa yeni "ummiyeen" ya arab musulman to choda so bers se aabad hein hi, is sadi ke aaghaz se sabqa aur mazool shuda ummat e muslimah yeni yahudiyon ki bhi az sar e no abad kaari zor shor ke sath shiru ho gai thi, jo anqareeb apne climax ko pohanch jaey gi aur poori dunya se tamam yahudi kashaan kashaan yahin aa ker aabad ho jaein ge. chunache in azeem jangon ya silsila e malaham ke zariye holnaak tabahi ki soorat mein Allah ke qanoon e azaab e mutabiq shadeed tareen kore in hi donon per parein ge. laikin in ke mabain bilaakhir aik azeem farq o tafawut zahir ho ga. yeni sabiqa mazzol, maghzoob aur mal'oon ummar yahud per to Allah ke is "azab e akbar" ke faisle ka nafaz hoga jis ki mustaghiq wo hazrat Masih A.S.
ki risalat ke inkar aur Anjanab A.S. ko apne bas perte sooli per cherhwa dene ki bina per ab se do hazar bars qabal ho chuki thi laikin jis ke nifaz ko aik khas sabab se muakhir ker diya gya tha, chunache ab se isay in hi hazar Masih A.S. ke zaiye aur musulmanon ke hathon nasyan mansiyya aur neest o nabood ker diya jaey ga. bilkul jaise hazraat Nooh, Hood, Salih, Loot aur Shuaib A.S. ki aqwaam aur aal e firaun apni apni janib baije jane wale rasoolon ki nigahon ke samne halak ho gaey thay. laikin is ke bar aks chunke mojuda ummar e muslima Allah ke aakhri Rasool S.A.W.W. ki ummat he aur AnHazoor S.A.W.W. ke qaul ke mutabiq khud aakhri ummat ki hesiyat rakhti he, mazeed baraan wo sirf aik nasal per mushtamil nahi balkeh "Multi national" ummat he, lehaza isay is ke jaraim ke baqadar saza dene ke bad toba ki tofeeq aur islaah ka moqa inayat ker diya jaey ga, jis se Islam ki nashaq e saniya aur Deen e Haq ka dor e sani shiru hoga jo is bar poore aalam e insani aur kul ru e arzi ko muheet hoga, jis ki sareeh aur waze khabrein di hein janab Sadiq o Masdooq S.A.W.W. ne.
aankh jo kuch dekhti he lab pe aa sakta nahi
mehw e khairat hoon keh dunya kia se kia ho jaey gi!




Fajar o Ishaa ki namaz




فجر و عشاء کی نماز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے فجر اور عشاء کی نمازوں سے زیادہ منافقوں پر اور کوئی نماز بوجھل نہیں اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا فضیلت ہے تو ان میں ضرور آتے چاہے سرین کے بل گھسیٹ کر آنا پڑتا۔ (بخاری و مسلم)

Eid ul Azha (Adha) ki qurbani





عید الاضحیٰ کی قربانی

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعض اصحاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے اور کیا تاریخ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ تمہارے (روحانی اور نسلی)مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کی کرتے تھے، ان کی سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اورمیری امت کو بھی دیا گیا گیا)" ان صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ پھر ہمارے لئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان قربانیوں کا کیا اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔" انہوں نے عرض کیا: تو کیا اون کا بھی یا رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)یہی حساب ہے؟ (اس سوال کا مطلب تھا کہ بھیڑ،دنبہ،مینڈھا،اونٹ جیسے جانور جن کی کھال پر گائے، بیل یا بکری کی طرح کے بال نہیں ہوتے بلکہ اُون ہوتا ہے، اور یقیناًان میں سے ایک ایک جانور جانور کی کھال پر لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں، تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہاں !اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی۔" (رواہ احمد و ابن ماجہ)

Eid ul Azha (Adha) ki qurbani




عید الاضحیٰ کی قربانی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحیٰ کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں ارو کھروں کے ساتھ (زندہ ہو کر)آئے گا۔ اور قربانی کے خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، پس اے اللہ کے بندو! دل کی پوری خوشی سے قربانی کیا کرو۔" (رواہ الترمذی)

Ehsan ka aitraf aur duaaey kher




احسان کا اعتراف اور دعائے خیر

"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ایک دن مہاجرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ ہم نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جیسے یہ(انصار مدینہ)لوگ ہیں جن کے ہاں ہم اترے ہیں، اگر ان کے پاس زیادہ ہو تو فراخدلی سے خرچ کرنے والے اور تھوڑا ہو تو اس سے ہماری غمخواری اور مدد کرنے والے۔ انہوں نے محنت و مشقت تو اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور منفعت میں ہمیں شریک کیا ہوا ہے۔ (ان کے اس غیر معمولی ایثار سے)ہم کو اندیشہ ہے کہ سارا اجرو ثواب انہی کے حصے میں آئے گا اور آخرت میں ہم خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں، ایسا نہیں ہو گا جب تک اس احسان کے بدلے تم ان کے حق میں دعا کرتے رہو گے اور ان کے لئے کلمہ خیر کہتے رہو گے۔" (رواہ الترمذی)

معلوم ہوا کہ اگر کسی محسن کے احسان کا بدلہ دینا ممکن نہ ہو تو دل و جان سے احسان کا اعتراف کرنا اور محسن کے لئے دعائےخیر کرتے رہنا ہدیے اور احسان کا بدلہ بن جاتا ہے۔

Eeman e Kamil ki alamat




ایمانِ کامل کی علامت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اُس شخص کے "کامل ایمان" ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے جس کی دوستی اور دشمنی اللہ کے لئے ہو اور جو مال خرچ کرنے اور نہ کرنے میں اللہ کی رضا کو ملحوظ رکھتا ہو۔" (ابوداؤد)

مؤمن کی زندگی کا نصب العین "اللہ کی رضا کا حصول ہے"اسے نہ ہو ستائش کی تمنا ہوتی ہے، نہ صلہ کی پروا، وہ کسی سے جڑتا ہے تو داتی اغراض سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ اس لئے کہ اللہ کے دین کا مفاد اسی سے وابستہ ہے۔ وہ کسی سے کٹتا ہے تو اپنے وقار اور ذوق کی بنا پر نہیں بلکہ محض اللہ کی رضا کے لئے۔ وہ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنے میں اللہ کی رضا کو مقدم سمجھتا ہے۔ کتنا، کہاں اور کب خرچ کرنا ہے؟ اس معاملہ میں وہ اللہ کے قانون کا پابند ہوتا ہے اور اس پابندئ قانون میں (نمود و نمائش کے جذبے سے بے نیاز)محض اللہ کی رضا اس کا مطمح نظر ہوتی ہے۔ وہ اس کام پر اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی صرف نہیں کرتا جس پر خرچ کرنے سے اللہ کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

Eeman aur muhabbat e Rasool




ایمان اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص جب تک مجھے اپنے باپ، بیٹے اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا اور محبوب نہ بنا لے اُس وقت تک وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔" (متفق علیہ)

صرف یہ نہیں فرمایا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو" بلکہ یہ فرمایا ہے کہ"تمھیں سب سے زیادہ محبت اور پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہونا چاہئے" ورنہ تم مؤمن نہیں ہو۔ محبت کی یہ علامت ہے کہ محب اپنے محبوب کی ہر ادا پر جان دیتا ہے اور ہر معاملہ میں اس کی پیروی میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اپنے محبوب سے اختلاف کرے یا اس کے کسی فرمان کو ٹھکرا دے یا اس کے کسی حکم کو نہ مانے یا اس راہ پر چلے جسے اس کا محبوب پسند نہ کرتا ہو یا اپنے محبوب کے دشمنوں سے دوستی قائم کرے۔ یا زندگی کے کسی معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو مسترد کر دے یا ایسے نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرے جس کو مٹانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔

Dusron ki zaruret mein kaam aana




دوسروں کی ضرورت میں کام آنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص میری اُمت میں سے کسی کی ضرورت پوری کر دے اور اس سے اس کی نیت صاحب ضرورت کو خوش کرنے کی ہو تو اُس نے مجھ کو خوش کیا اور جس نے مجھ کو خوش کر دیا اُس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کر دیا اور جس نے اللہ پاک کو خوش کر دیا اللہ پاک اُس کے بدلے میں اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔"   (مشکو ٰة شریف)

Dunyawi takleefon ka badlah




دنیاوی تکلیفوں کا بدلہ

ابو بکر بن ابوزہیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس آیت کے بعد کیسے بچاؤ ہو گا:"تمہاری اور اہل کتاب کی خواہشوں کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کی سزا ملے گی" پس ہم نے جو بھی برائی کی ہو گی اس کی سزا ملے گی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ آپ کو معاف کرے اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ کو تھکاوٹ نہیں ہوتی؟ کیا آپ کو غم نہیں آتے؟ کیا آپ کو تکالیف نہیں آتیں؟انہوں نے عرض کیا:یہ تو ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس یہ بدلہ ہے آپ کی برائیوں کا۔" (مسند احمد)

Dunyawi muaamlat mein mein adal kerne walon ki fazeelat




دنیاوی معاملات میں عدل کرنے والوں کی فضیلت

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص(رضی اللہ عنہما)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالیٰ کے ہاں (یعنی آخرت میں)نور کے منبروں پر اللہ تعالیٰ کے داہنی جانب ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔" (رواہ مسلم)

ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت میں ذمہ دار اور صاحب اختیار ہوتا ہے اور اسے اپنی حیثیت میں تمام معاملات میں عدل و قسط سے کام لینا چاہئے خواہ وہ اپنے گھر والوں کا معاملہ ہو یا رشتہ داروں اور دوستوں کا ہو یا پھر عدالتی یا حکومتی اختیارات ہوں۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اسے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کرنا ہو گی۔" ہم حکومتی سطح پر صاحب اختیار آدمیوں کے بارے میں تو بہت تبصرے کرتے ہیں لیکن اپنی حیثیت پر کبھی نہیں سوچتے کہ اس میں عدل کر رہے ہیں یا نہیں۔ اپنے معاملے کو اہمیت نہ دینے سے معاملات میں ناانصافی شروع ہو جاتی ہے۔

Dunya se nafrat aur kam goi hikmat ki nishani he



دنیا سے نفرت اور کم گوئی حکمت کی نشانی ہے!

حضرت ابو ہریرہ اور ابو خلاد رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ اُسے  دنیا سے نفرت اور کم گوئی کا عطیہ دیا گیا ہے تو اس کا قرب تلاش کرو۔ اس لیے کہ اُسے حکمت دی گئی ہے۔"(رواہ البیھقی فی شعب الایمان)

Dunya se muhabbat ka nuqsan




دنیا سے محبت کرنے کا نقصان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص دنیا سے پیار کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے اور جو شخص آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو ضرور بگاڑتا ہے۔ لوگو! دائمی کو عارضی پر ترجیح دو۔"  (مشکو ٰة)

دنیا فانی ہے، اس جہانِ رنگ و بو میں پیدا ہونے والا انسان آخر کتنی عمر پاتا ہے؟ آخرت کی زندگی دائمی ہے، اس کی نعمتیں لازوال اور ابدی ہیں، وہاں کسی پر موت نہ آئے گی۔جو لوگ دنیا کی چند روزہ زندگی میں ہر طرح کے مادی فائدے اور عیش و آرام کے اسباب مہیا کر لیتے ہیں وہ آخرت میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور جن کی تگ و دو کا ہدف یہ ہو کہ "اللہ کے لیے جینا ہے اور آخرت کی زندگی میں کامیاب ہونا ہے" وہ دنیا پرستوں کی طرح خوش حال نہیں ہو سکتے، وہ ہر طرح کی تکلیف اور نقصان تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا ہو۔ 

Dunya se aadmi ka hisah




دنیا سے آدمی کا حصہ

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ان تین چیزوں کے علاوہ ابن آدم کا یہاں کوئی حق نہیں:

(١) گھر، جس میں وہ رہائش رکھے۔ (٢) اتنا کپڑا، جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے۔ (٣) روٹی کا ٹکڑا اور پانی۔

(رواہ الترمذی)

تشریح: دنیا دراصل دل لگانے کی جگہ نہیں بلکہ حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے تیاری کا وقفہ ہے۔ اس حدیث میں مذکور تین چیزیں،  زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔پس ان کی فکر کرنا تو درست ہے۔ اس کے علاوہ دنیاوی چیزوں اور مال و متاع کے جمع کرنے میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنا دانش مندی نہیں۔

Dunya qaid khana he




دنیا قید خانہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے بہشت ہے۔" (رواہ مسلم)

تشریح: ایمان لانے سے لازم آتا ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں ان تمام پابندیوں کو اپنے اوپر لازم کر لے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عائد کی ہیں۔ حرام خوری، ظلم، رشوت، بددیانتی، بدکاری، بےحیائی، جھوٹ، دھوکہ بازی، ایذا رسانی، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور ڈاکہ زنی سے پرہیز کرے اور ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے جنہیں اللہ کی شریعت نے اپنانے کا حکم دیا ہے۔ ایسی بااصول اور پابند احکام زندگی کو "قید خانہ" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مؤمن دنیا میں بے لگام زندگی بسر نہیں کرتا۔ ہر کام کرنے سے پہلے اسے سوچنا پڑتا ہے کہ اس سے اس کا آقا تو ناراض نہ ہو گا؟ اس کے برعکس کافر کا ذہن اور کردار ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کےہاں نہ تو آخرت کی زندگی کا کوئی تصور ہے اور نہ خالق کے سامنے جوابدہی کا کوئی احساس ہے۔چنانچہ وہ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیرلذاتِ نفسانی کا سامان اور اپنی بے لگام خواہشات کی تکمیل کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی کو "جنت" سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Dunya parast ulama




دنیا پرست علماء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی نے وہ علم (یعنی قرآن و سنت کا علم)سیکھا جس سے اللہ کی رضا مقصود ہونی چاہیے،مگر اس نے اسے محض دینوی مال و متاع کے حصول کے لیے سیکھا وہ شخص قیامت کے دن بہشت کی خوشبو  سے بھی محروم رہے گا۔" (ابو داؤد، کتاب العلم)

Dunya mein musafir balkeh raah geer ki tarah raho




دنیا میں مسافر بلکہ راہ گیر کی طرح رہو

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے تو)میرامونڈھا پکڑا (تاکہ میں متنبہ ہو جاؤں)پھر فرمایا:"تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر بلکہ راہ گیر ہو۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ (اس کے بعد لوگوں سے) فرمایا کرتے تھے کہ"جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو، نیز اپنی صحت کو بیماری سے غنیمت جانو، اور اپنی زندگی کو موت سے غنیمت سمجھو۔" (بخاری و مسلم)

دنیا کی طرف رغبت نہ رکھو، اس لئے کہ تم اس دنیا سے آخرت کی طرف سفر کرنے والے ہو، لہٰذا تم اس دنیا کو اپنا وطن نہ بناؤ، دنیا کی لذتوں کے ساتھ الفت نہ رکھو، دنیا کو سفر گاہ سمجھو اور اس میں ایک راہ گیر کی طرح رہو،کیونکہ راستہ چلنے والا کسی جگہ قیام نہیں کرتا۔

جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ کسی بھی شخص کو اپنی موت کا علم نہیں ہے، نہ معلوم موت کا پنجہ کس وقت گردن آ دبوچے، ایک لمحے کے لئے بھی کسی کو زندگی کا بھروسہ نہیں ہے۔ صبح کے وقت کسی کو معلوم نہیں کہ شام کا وقت دیکھنا بھی نصیب ہو گا یا نہیں،اسی طرح شام کے وقت کوئی شخص صبح تک زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ حاصل یہ ہے کہ صبح و شام ہر وقت تم موت کو اپنے سامنے حاضر سمجھو۔ زندگی کی آرزؤں اور تمناؤں کو دراز نہ کرو۔

صحت و تندرسی میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت جانو۔ یعنی زندگی میں عمل ہی عمل کئے جاؤ۔

Dunya mein gunahon ki saza





دنیا میں گناہوں کی سزا

"حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لئے بھلائی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو دنیا میں اُسے(اس کے گناہوں کی) سزا دے دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لئے برائی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس کے گناہوں کی سزا کو قیامت تک کے لئے روک لیتے ہیں۔" (رواہ الترمذی)

بندۂمومن کو جب ایمان کی لذت نصیب ہو جاتی ہے تو وہ اس زندگی کی تمام آفت و آزمائشوں کو بڑی پامردی سے جھیلتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جب آزمائشیں میرے مالک کے اذن سے ہی وارد ہوتی ہیں اور اس میں میری بھلائی ہے تو مجھے ان کو مالک کی رضا سمجھ کر برداشت کرنا چاہئے۔