زبان کی پھسلن
زبان دو جبڑوں کے درمیان گوشت کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے ۔
مگر اس کی فعالیت بے کراں وسعتوں کی حامل ہے ۔ اس سے مرّوت اور محبت کے پھول بھی
کھلتے ہیں جو فضاؤں کو عطربیز بناتے ہیں اور فتنہ و فساد کے شرارے بھی جھڑتے ہیں
جو گردو پیش کو آتشیں بنا کر نفرت کی کھیتی کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ یہ زبان وصل کی
آسودگی بھی عطا کرتی ہے اور فصل کی نا آسودگی کا با عث بھی بنتی ہے ۔ یہی وجہ ہے
کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی
حفاظت پر بڑا زور دیا ہے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
استفسار کیا کہ یا رسول اللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز
کا ڈر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا، "اس کا ڈر
ہے۔" حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا "مومن نہ تو طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے،
نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گوئی کرنے والا اور نہ بدزبان ہوتا ہے ۔ " (ترمذ ی
)
حضرت موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو جب پیغمبر بنا
کر حق کی دعوت پیش کرنے کے لئے فرعون کے دربار میں بھیجا گیا تو یوں نصیحت فرمائی گئی
"دیکھو اس سے نرمی سے گفتگو کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر
جائے ۔" (طٰہٰ:44) عطابن یسار رحمتہ
اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ دو چیزوں کی برائی سے بچا دے تو جنت
میں جائے گا ۔ ایک شخص نے پوچھا، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو نہیں
بتاتے کہ وہ دو چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے، پھر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ۔ وہ شخص یہی بولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش
رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ۔ وہ شخص یہی بولا (یعنی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ہم کو نہیں بتاتے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ۔ وہ
شخص بولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو نہیں بتاتے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہی فرمایا ۔ وہ شخص وہی بولے جاتا تھا، اتنے میں ایک دوسرے شخص نے اس کو چپ کرا دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے خود ہی فرمایا ۔ "جس کو اللہ دو چیزوں کے شر سے بچا لے وہ جنت میں
جائے گا ایک وہ جو اس کے دونوں جبڑوں کے بیچ میں ہے ۔ (زبان) دوسرے وہ جو اس کے دونوں پاؤں کے بیچ میں ہے۔ (شرم گاہ)" تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
کو ارشاد فرمایا ۔ (مؤطا امام مالک )
بے تکی ہانکنے، لغو اور بے ہودہ گفتگو کرنے، دوسروں کی
نقیص کرنے، بغیر تحقیق الزام دھرنے کا
رواج ہمارے ہاں عام ہے ۔ عام لوگ اس شغل میں مشغول ہوتے ہیں ہیں، مگر المیہ یہ ہے
کہ وا عظ و ناصح ، سیاستدان، اچھے خاصے دانشور اور اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے
لوگ اس برائی کے عادی ہیں ۔ ناپ تول کر بات کرنے کا یا تو ان میں سلیقہ نہیں یا جہالت سے وہ دوسری پر کلوخ اندازی کر کے، سب و شتم کے تیر برسا کر لطف لیتے ہیں اور اس بات سے غافل ہو جاتے ہیں کہ وہ اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں اور باہم
روابط و تعلقات کی راہ کھوٹی کر رہے ہیں ۔
بلال بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے
فرمایا کہ آدمی ایک بات کہ دیتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اس کا اثر ہوگا۔اس
کی وجہ سے اللہ اپنی رضامندی قیامت تک اس بندے سے لکھ دیتا ہے اور ایک ایسی بات
کہتا ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اثر ہوگا۔اس کی واضح سے قیامت تک اللہ اپنی ناراضی اس بندے سے لکھ دیتا ہے ۔
تمام تر بحث سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زبان کھولتے
وقت حزم و اختیاط سے کام لیا جائے،کوئی ایسا گل نہ کھلایا جائے جو ماحول کو مکدر کر دے۔ قرآن میں اللہ نے اپنے
بندوں سے مخاطب ہو کر فرمایا"میرے بندوں سے کہیں کہ وہی کہیں جو بہتر (جس میں
خیر و بھلائی ہو) کیونکہ شیطان لوگوں میں فساد
ڈلواتا ہے ۔ بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔" (بنی اسرائیل :٥٣) مولانا سید سلیمان ندوی نے بڑے خوب صورت انداز میں اس کی توضیح کی ہے کہ
"آیت کے پچھلے حصے میں دعویٰ کی دلیل بھی دی گئی ہے کہ
خوش گوئی او خوش کلامی آپس میں میل ملاپ پیدا کرتی ہے اور بدگوئی و بدکلامی پھوٹ
پیدا کرتی ہے ۔ جو شیطان کا کام ہے ۔ وہ اس کے ذریعے لوگوں میں غصہ، نفرت اور حسد
کے بیج بوتا ہے ۔ اس لئے اللہ کے بندوں کو چاہئے کہ نیک بات بولیں، نیک بات کہیں، اچھے لہجے میں کہیں اور نرمی سے کہیں کہ آپس میں میل ملاپ اور مہر و بحث پیدا ہو ۔
اس لئے "تنابز بالا لقاب" یعنی ایک دوسرے کو برے لفظوں اور نفرت و
تحقیرکے خطا بوں سےپکارنے کی ممانعت آئی ہے ۔کسی کو کافر یا منافق اور تحقیر و
کراہت کے دوسرے القابات سے مخاطب کرنا گویا اس اچھی بات کے خلاف ہے جو آپ اس کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔
یہ پہلے ہی نفرت اور ضد کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے ۔"
عتیق الرحمٰن صدیقی