حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لذتوں کو کاٹنے والی کو بہت یاد کرو۔" رواہ الترمذی

Aazmaish se gunah muaf ho jate hein

آزمائش سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن مرد اور مومنہ عورت کی جان، مال اور اولاد میں آزمائش آتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں ہوتا۔" (رواہ الترمذی)

یہ دنیا کے اسباب اور رشتے ناطے تو ہیں ہی آزمائش کے لئے۔ اصل میں ہر انسان کی اپنی انفرادی حیثیت ہے اور اسے اس حیثیت میں جوابدہی کرنا ہے۔ اگر ان آزمائش میں مصائب پر مومن مرد و عورت صبر اختیار کرتا ہے اور مایوسی ظاہر نہیں کرتا یا جزع فر ع نہیں کرتا تو گویا یہ اس کے ایمان کا ظہور ہے اور ان مصائب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرماتا رہتا ہے تا کہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔ 

Aap (saaw) ki zubaan bari pakeezah thi

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بڑی پاکیزہ تھی

"حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زبان گالیاں دینے، لعنت کرنے اور فحش گوئی سے ناآشنا تھی۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی پرغصہ اور عتا ب کا اظہار کرتے وقت (زیادہ سے زیادہ) یہ فرماتے تھے اسے کیا ہو گیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔" (بخاری  کتاب الا دب )

تشریح: ترب جبینہ کے معنی ہیں " وہ منہ کے بل گرے اور اس کی پیشانی خاک آلود ہو" یعنی وہ محتاج اور تنگدست ہو۔ عرب کے لوگ اس کلمہ کو اس کے حقیقی معنی (محتاجی اور تنگدستی کی بد دعا دینا) میں استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ گفتگو کے دوران یہ کلمہ ( اور اس طرح کے دو چار اور کلمے بھی ہیں) بے ساختہ ان کی زبان پر آ جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کی طرح اس کلمہ سے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے تھے۔ یہ کلمہ غیر ارادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہو جاتاتھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح فحش کلامی، گالی گلوچ اور لعنت کرنے سے اجتناب کریں۔

Aamantu (mein eeman laya)


آ مَنْتُ بِا للہِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا۔ تو جو آدمی اس طرح کا وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا۔" (صحیح مسلم)

Aalim e Quran ka rutba

عالمِ قرآن کا رتبہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"(قیامت کے دن) قرآن کاعالم تو فرمانبردار، بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو رسولوں کو اللہ کے پیغامات پہنچانے پر مامور تھے، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر بڑی مشقت سے پڑھے اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔" (رواہ مسلم)

"ماہر قرآن" (جس کا ترجمہ ہم نے عالمِ قرآن سے کیا ہے) کے معنی ہیں: (١) قرآن مجید کو بلا تکلف پڑھنے والا جو ادب اور صحت کے ساتھ اس کی تلاوت پرقادر ہو۔ (٢) قرآن کا حافظ جس نے اعلیٰ درجہ کا حافظہ پایا ہو، قرآن کی تلاوت اور قرات اس کے لئے آسان ہو۔ (٣) قرآن کا عالم، جو اسے سمجھ کر پڑھتا ہو، اس میں غور و تدبر کرتا ہو اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہو۔

Aalim e Deen aur Daai ka muqaam


عالم دین اور داعی الی اللہ کا مقام

"ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ان دونوں میں سے افضل کون ہے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسی کہ میری فضیلت اس شخص پر ہے جو تم میں سے سب سے ادنیٰ درجہ کا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور پانی میں مچھلیاں اس کے لئے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا درس دیتا ہے۔"  (رواہ الترمذی و رواہ الدارمی)


Aakhirat mein Allah ki rehmat


آخرت میں اللہ کی رحمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی رحمت کے ایک سو حصے ہیں، اس کی رحمت کے صرف ایک حصہ کا کرشمہ ہے کہ خلقِ خدا ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے (اور اللہ کی رحمت کے) ننانوے حصوں کا ظہور قیامت کے دن ہو گا
۔" (متفق علیہ)

جنوں،انسانوں، چوپایوں، پرندوں اور جنگلی جانوروں کی زندگی پر ذرا غور فرمائیں،ماں کواپنی اولاد سے کتنا پیار ہوتا ہے! چڑیا اپنے نوزائیدہ بچے کے منہ میں خوراک کیوں ڈالتی ہے؟ مصیبت زدہ اور مظلوم کی ہمدردی پر انسان کیوں مجبور ہے؟ دوستوں اور رشتہ داروں کی موت پر آنکھیں اشکبار کیوں ہو جاتی ہیں؟  بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمدردی، غم گساری، احسان اور محبت کی کارسازیاں رحمان کی رحمت کا سایہ ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت کا پرتو اور اس کا صرف ایک حصہ ہے، اس کی رحمت کے ننانوے حصوں کو قیامت کے دن ظاہر ہوناہے۔

Aag ka hamla


آگ کا حملہ

حضرت سمرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"(دوزخ کی) آگ (قیامت کے دن)بعض لوگوں کے ٹخنے پکڑ لے گی۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے گھٹنوں تک پہنچ جائے گی۔ بعض بدنصیبوں کی کمر بھی اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گی اور بعض لوگ ہنسلی تک آگ میں غرق ہوں گے۔" (مسند احمد)

Aafiyet ki fazeelat

عافیت کی فضیلت

حضرت اوسط رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: پچھلے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ اور پھر ان پر گریہ طاری ہوگیا۔ پھر انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان و یقین کے بعد افضل ترین چیزعافیت ہے اور تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے کیونکہ سچائی وفاداری کی ساتھی ہے اور ان دونوں کا ٹھکانہ جنت ہے،اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ اور نافرمانی ساتھی ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ باہم حسد نہ کرو اور بغض نہ رکھو۔ باہمی تعلقات نہ توڑو اور ایک دوسرے سے جدا نہ رہو اور بھائی بھائی بن کر رہو جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم پرفرمایا ہے۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ)

Aadil hakim ki fazeelat

عادل حاکم کی فضیلت

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوگا اور اس کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا اور (اس کے برعکس)وہ ارباب حکومت قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے جو ظلم کے ساتھ حکومت کرنے والے ہوں گے۔    (روا ہ الترمذی)

انسانوں میں سے جس کے کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ جتنا زیادہ ہو گا اس کا معاملہ اتنا ہی کٹھن ہو گا۔ اس لئے مشہور ہے کہ کوئی شخص جتنا زیادہ با اختیار ہو گااتنا ہی اس کے بے راہ رو ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں عدل و انصاف کرنے والا حاکم تو واقعی بہت بڑے رتبے کا اہل قرار پائے گا اور قیامت کے دن جن لوگوں کو اللہ کے عرش کا سایہ نصیب ہو گا ان میں بھی اولیت عادل حاکم کو ہی حاصل ہو گی۔لیکن اگر حکمران عدل کرنا چھوڑ دے تو ظلم بھی انتہا کو پہنچے گا۔ اس لئے گرفت بھی سخت ہوگی۔

اگر حاکم کی نیت عدل کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتے ہیں اور جب اس کی نیت خراب ہو جائے تو پھر شیطان ان کا رفیق بن جائے گا اور وہ اسے جہنم پہنچا کر رہے گا۔ اس لئے محنت و لگن سے صحیح فیصلہ تک پہنچنے پر دوہرا اجر بھی ہے اورنیت نیک ہو لیکن فیصلہ کرنے میں غلطی ہو جائے تو اس پر مواخذہ نہیں ہے بلکہ اکہرا اجر ہے۔

Aadil aur Zalim hukmran


عادل اور ظالم حکمران

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب اور اس کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقرب انصاف کرنے والا حکمران ہوگا اور اس دن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس کی بارگاہِ عالی سے سب سے زیادہ دور "ظالم حاکم ہو گا۔"   (رواہ الترمذی)

Aadab e Istaghasa


  آدابِ استغاثہ

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں بشر ہوں۔تم اپنے جھگڑوں کے فیصلہ کے لئے میرے پاس آتے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میں اپنی دلیل کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دلائل سننے کے بعد میں ایک فریق کے حق میں فیصلہ کر دوں(تو اسے خدا سے ڈرنا چاہئے)اور ایک شخص کو دوسرے کے مال کا مالک بنا دوں تو وہ نہ لے۔ بے شک میں آگ سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں۔" (رواہ بخاری)

تشریح: اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے سامنے دو آدمی وراثت کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے۔ ان کی توتکار سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ میں بشر ہوں ہر شخص کے دلائل سننے کے بعد ہی میں نے فیصلہ کرنا ہے اور وہ فیصلہ صرف دلائل کی بنا پر ہو گا۔ بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میں اپنے دلائل کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں در آنحا لیکہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں ہوتے، تم خدا سے ڈرتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کرو۔ اگر میں نے کسی فصیح و بلیغ آدمی کے دلائل سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اسے ایک ایسی چیز کا مالک بنا دیا جس کی فی الواقع وہ مالک اور مستحق نہیں ہے تو اسے گمان نہ کرنا چاہئے کہ میرے اس فیصلہ سے حرام حلال ہو جائے گا۔ بہرحال جو شخص اپنی طلاقت لسانی کی وجہ سے اپنے حق میں فیصلہ کرا رہا ہے۔ وہ اچھی طرح یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ اس نے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا وصول کیا ہے یعنی اس مالِ حرام کی وجہ سے اسے قیامت کے دن آگ میں جانا پڑے گا۔

عدالت صرف اس بات کی مکلف ہے کہ وہ اپنی حد تک مقدمہ کے مواد،دلائل اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ عدالت میں جانے والے ہر شخص کو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ مرنے کے بعد اللہ کی بے لاگ عدالت میں بھی یہ مقدمہ زیر بحث آئے گا۔ طلاقتِ لسانی اور ذہانت کا کوئی حربہ وہاں کارگر نہ ہو سکے گا۔