آدابِ استغاثہ
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں بشر ہوں۔تم اپنے جھگڑوں کے فیصلہ کے لئے میرے پاس آتے ہو۔
ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میں اپنی دلیل کو نہایت
خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دلائل سننے کے بعد میں ایک فریق
کے حق میں فیصلہ کر دوں(تو اسے خدا سے ڈرنا چاہئے)اور ایک شخص کو دوسرے کے مال کا
مالک بنا دوں تو وہ نہ لے۔ بے شک میں آگ سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں۔"
(رواہ بخاری)
تشریح: اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ
عنہا کے گھر کے سامنے دو آدمی وراثت کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے۔ ان کی توتکار سن
کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ میں بشر ہوں ہر
شخص کے دلائل سننے کے بعد ہی میں نے فیصلہ کرنا ہے اور وہ فیصلہ صرف دلائل کی بنا
پر ہو گا۔ بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میں اپنے دلائل کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ
پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں در آنحا لیکہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں ہوتے، تم
خدا سے ڈرتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کرو۔ اگر میں نے کسی فصیح و بلیغ آدمی کے دلائل
سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اسے ایک ایسی چیز کا مالک بنا دیا
جس کی فی الواقع وہ مالک اور مستحق نہیں ہے تو اسے گمان نہ کرنا چاہئے کہ میرے اس
فیصلہ سے حرام حلال ہو جائے گا۔ بہرحال جو شخص اپنی طلاقت لسانی کی وجہ سے اپنے حق
میں فیصلہ کرا رہا ہے۔ وہ اچھی طرح یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ اس نے کہ اس نے آگ
کا ایک ٹکڑا وصول کیا ہے یعنی اس مالِ حرام کی وجہ سے اسے قیامت کے دن آگ میں جانا
پڑے گا۔
عدالت صرف اس بات کی مکلف ہے کہ وہ اپنی حد تک
مقدمہ کے مواد،دلائل اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ عدالت میں جانے
والے ہر شخص کو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ
مرنے کے بعد اللہ کی بے لاگ عدالت میں بھی یہ مقدمہ زیر بحث آئے گا۔ طلاقتِ لسانی
اور ذہانت کا کوئی حربہ وہاں کارگر نہ ہو سکے گا۔