بندوں
پر اللہ کا حق
حضرت
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری
پر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف کجاوہ کا پچھلا
حصہ مائل تھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھا ہوا تھا) آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:اے معاذ بن جبل، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ
مبارک کی تعمیل کرنے کے لئے تیار ہوں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے پھر پکارا"اے معاذ بن جبل" میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !
(صلی اللہ علیہ وسلم) غلام حاضر ہے کیا حکم ہے؟ (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کچھ نہ فرمایا اور خاموش رہے) اور کچھ دیر چلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
پھر پکارا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
میں حاضر ہوں آپ حکم دیں میں تعمیل کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: تم
جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول خوب
جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ
"وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائیں۔"
پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے معاذ بن جبل! میں نے
عرض کیا حضور! غلام حاضر ہے، ارشاد فرمائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جانتے ہو بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے جب وہ اس کی بندگی کریں اور کسی کو اس کا
ساجھی نہ بنائیں۔میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں سزا نہ دے۔
قیامت
کے دن آدمی دوزخ کے عذاب سے صرف اس صورت بچ سکتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف اللہ کی
عبادت کرے اور کسی دوسرے کو اس کا ساجھی قرار نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے
معنی یہ ہیں کہ پرستش اور پوجا،نذر و نیاز، طواف اور سجدہ کا مستحق صرف اللہ
تعالیٰ ہے اور زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں بھی اسی کی اطاعت کی جائے
اور بندگی سوائے اللہ کے اور کسی کے لئے نہ ہونی چاہئے۔ (متفق علیہ)
No comments:
Post a Comment