عید
الاضحیٰ کی قربانی
حضرت
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعض
اصحاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ان قربانیوں کی
کیا حقیقت ہے اور کیا تاریخ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ تمہارے
(روحانی اور نسلی)مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کی کرتے تھے، ان کی سنت اور
قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اورمیری امت کو بھی دیا گیا گیا)"
ان صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ پھر ہمارے لئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) ان قربانیوں کا کیا اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قربانی
کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔" انہوں نے عرض کیا: تو کیا اون کا
بھی یا رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)یہی حساب ہے؟ (اس سوال کا مطلب تھا کہ
بھیڑ،دنبہ،مینڈھا،اونٹ جیسے جانور جن کی کھال پر گائے، بیل یا بکری کی طرح کے بال
نہیں ہوتے بلکہ اُون ہوتا ہے، اور یقیناًان میں سے ایک ایک جانور جانور کی کھال پر
لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں، تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی
ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:"ہاں !اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے
ملے گا کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی۔" (رواہ احمد و ابن ماجہ)
No comments:
Post a Comment