حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لذتوں کو کاٹنے والی کو بہت یاد کرو۔" رواہ الترمذی

Waaz be amal




واعظ بے عمل

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ وہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:"قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈالا جائے گا۔ دوزخ میں  اس کے پیٹ کی آنتیں (دبر سے) بہت جلد باہر نکل آئیں گی۔ وہ ان کے اردگرد اس طرح چکر لگائے گا جیسے گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ دوزخی اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے، اے فلاں! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تُو  (دنیا میں) ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ جواب میں کہے گا: (ہاں یہ سچ ہے) میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا (اس لیے یہ سزا بھگت رہا ہوں) ۔" (متفق علیہ)
تشریح: "معروف" سے مراد اسلام کے وہ احکام اور اوامر ہیں جن پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور منکر سے مراد وہ گناہ اور برائیاں ہیں جن سے دور رہنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے ۔ یہ حدیث ایک لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جو دین کی دعوت اور تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ علماء اور دینی جماعتوں کا افراد کو چاہیے کہ وہ اس "معروف" پر خود بھی عمل کریں جس کا لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور اس "منکر" سے اجتناب کریں جس سے لوگوں کو روکتے ہیں ورنہ قیامت کے دن وہ اس سزا کے مستحق ہوں گے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔

No comments:

Post a Comment