قبر کی کٹھن منزل
"حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
کا حال یہ تھا کہ وہ جب کسی قبر کے پاس ہوتے تو بہت روتے یہاں تک کہ آنسوؤں سے ان
کی داڑھی تر ہو جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ دوزخ اور
جنت کو یاد کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کی وجہ سے اس قدر روتے ہیں۔ آپ نے جواب
دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے
پہلی منزل ہے پاس اگر بندہ اس سے نجات پا گیا تو آگے کی منزلیں اس سے زیادہ آسان
ہیں اور اگر قبر کی منزل سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ
سخت اور کٹھن ہیں نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں دیکھا میں
نے کوئی منظر مگر یہ کہ قبر کا منظر اس سے زیادہ خوف ناک اور شدید ہے۔" (رواہ
الترمذی)
یہ بندہ مومن کی کیفیت
کا اظہار ہے کہ اسے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ برزخ و قیامت کی گھاٹیاں ضرور آئیں گی
اور جزا و سزا کا معاملہ لازماً ہو گا۔ لہٰذا اس یقین کا اس کے ہر عمل پر اثر ہوتا
ہے اور وہ بچ بچ کر چلتا ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ فرعون اور آل
فرعون کے بارے میں قرآن مجید میں درج ہے کہ ان کا ٹھکانہ جو دوزخ میں ہے وہ انہیں
روزآنہ صبح و شام دکھایا جاتا ہے۔ باقی تمام انسانوں کے لئے بھی نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا جنت یا دوزخ میں جو مقام ہو گا وہ
صبح و شام اس کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اور یہی مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس
فرمان کی ہے کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بن جاتی ہے یا دوزخ کے
گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ اس قبر کی منزل سے نجات وہی پائے گا جو قبر اور آخرت کے
عذاب سے بچنے کا سامان کرے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قبر کی اس
منزل میں کامیابی عطا فرمائے اور اپنے فضول و کرم سے جنت والوں میں شامل فرمائے۔
No comments:
Post a Comment