قضا اور قدرت کے مسئلہ
پر بحث کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ (مسجد نبوی میں) بیٹھے قضا و قدر کے مسئلے پر
بحث و مباحثہ کر رہے تھے کہ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف
لائے (ہمیں بحث کرتے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ
چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور اس قدر سرخ ہو گیا کہ معلوم ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے
فرمایا کہ کیا تم کو یہی حکم دیا گیا ہے، کیا میں اسی لئے بھیجا گیا ہوں۔ خبردار
تم سے پہلے امتیں اسوقت ہلاک ہوئیں جبکہ انہوں نے اس مسئلے پر حجت و بحث کو اپنا
طریقہ بنا لیا۔ میں تم کو قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلہ پر
ہرگز بحث و مباحثہ نہ کیا کرو۔
(ترمذی)
انسان بعض دفعہ اپنی
کوتاہیوں کو جواز دینے کے لئے مسئلہ تقدیر کو بہانہ بنا لیتا ہے حالانکہ دنیا کے
باقی کام اپنی مرضی سے کر رہا ہوتا ہے لیکن اللہ کی اطاعت پر یوں کہ اٹھتا ہے کہ
اللہ کو منظور ہوا تو یہ کام بھی کر لوں گا۔ حالانکہ دنیاداری کے کام خود کر رہا
ہوتا ہے اور اس کے لئے تقدیر کا قائل نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ معاملہ تو اللہ تعالیٰ
کے علم و قدرت کے ہے اور اس کے بارے میں انسان جانتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ بکل شئی علیم بھی ہے پھر ان معاملات میں خواہ
مخواہ بحث میں پڑتا ہے۔ اللہ نے اپنے علم و قدرت کی بنیاد پر ہر چیز کو پیدا کر کے
اس کا اندازہ ٹھہرایا ہے اس لئے وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا اور اسے کوئی بدلنے کی بھی
طاقت نہیں رکھتا۔
No comments:
Post a Comment