حلال و حرام سے لاپرواہی کے نتائج
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس
کی پرواہ نہ ہو گی کہ جو کچھ وہ لے رہا ہے، حلال ہے یا حرام۔" اور رزین نے یہ
زائد بیان کیا ہے کہ "پھر اس وقت لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔"
آج کل اسی دور سے ہم گزر رہے ہیں۔ آج جو دین دار
سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اپنے پاس آنے والے چندوں کے بارے میں کبھی نہیں پوچھتے کہ
کہاں سے آ رہا ہے۔ حال ہی کا واقعہ ہے کہ ہمارے ایک ساتھی نے ایک امام مسجد سے عرض
کی کہ مسجد میں تعمیر کے لئے اپیل کرتے ہوئے اتنا تو کہ دیا کرو کہ لوگو اپنی حلال
کی کمائی سے مسجد میں لگاؤ۔چنانچہ انہوں نے ایسا کہنا شروع کر دیا لیکن جب پورا
مہینہ ایک پیسہ بھی نہ آیا تو پھر وہ اس سے باز آ گئے۔یہی وجہ ہے کہ مسجدیں تو سنگ
مر مر سے مزین ہیں لیکن نمازیوں کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم۔ ادارے تو بن جاتے
ہیں اور خوب شان سے بنتے ہیں لیکن وہاں سے خیر برآمد نہیں ہوتا۔ لاکھوں کی تعداد
میں امتی حج و عمرہ ادا کر رہے ہیں اور کس آہ و زاری سےدعائیں مانگ رہے ہیں لیکن
ان کی حالت نہیں بدلتی اور غیر مسلم کس طرح انہیں پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ اس کی
وجہ یہی اکل حرام ہے کہ نمازیں تو اللہ کے حکم سے پڑھ رہے ہیں لیکن اس کے حرام کئے
ہوئے سود کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں اور سود پر قرضہ لے کر کس طرح خوشی مناتے ہیں
اور بڑے بڑے ادارے بنا کر کس طرح مطمئن ہیں کہ اللہ کے دین کی خدمت ہو رہی
ہے۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل لحم نبت من السحت کانت النار اولی
بہ "ہر جسم/گوشت جو حرام سے پلا بڑھا
ہو، دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہے۔"
No comments:
Post a Comment