اسلام
میں نظام خرید و فروخت
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
غلہ وغیرہ لانے والے قافلے والوں سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو اور تم
میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کے معاملہ میں اپنے معاملہ بیع سے مداخلت نہ کرے اور
(کسی سودے کے نمائشی خریداری بن کر اس کی) قیمت بڑھانے کا کام نہ کرو اور شہری
تاجر بدویوں کا مال اپنے پاس رکھ کر بچنے کا کام نہ کریں اور (بیچنے کے لئے)
اونٹنی یا بکری کے تھانوں میں دودھ جمع نہ کرو۔ اگر کسی نے ایسی اونٹنی اور بکری
خریدی تو اس کا دودھ دوہنے کے بعد اس کو اختیار ہے کہ اگر پسند ہو تو اپنے پاس
رکھےاور اگر ناپسند ہو تو واپس کر دے اور (جانور کے مالک کو)ایک صاع(قریباً٤ سیر)
کھجوریں بھی دے دے۔" (صحیح مسلم، کتاب البیوع)
اس
فرمان میں کاروبار اور لیں دین سے متعلق بعض اہم ہدایت ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے امت کو تلقین فرمائیں۔ بازار یا منڈی میں پہنچنے سے پہلے مال کا سودا کرنے
سے تاجر کو نقصان ہو سکتا ہے کہ اسے منڈی کا بھاؤ معلوم نہ ہو اور سرمایہ دار غلہ
بھی قبضے میں کر کے مہنگا بیچے گا۔ جیسےآج کل ہماری فروٹ منڈی اور سبزی منڈی میں
ہوتا ہے کہ نمائشی خریدار بھاؤ اوپر چڑھا دیتے ہیں، اس سے بھی روکا گیا ہے۔
دیہاتیوں کا مال شہری تاجر اپنے پاس رکھ کر نہ بیچیں کہ خواہ مخواہ مال روک کر
قیمت بڑھائیں گے۔ جانوروں کے تھنوں میں دودھ روک رکھنا تو دھوکہ کی صورت ہے جس پر
خریدار کو اختیار دیا گیا ہے کہ اصل معاملہ معلوم ہونے پرسودا برقرار رکھے یا واپس
کر دے۔ کتنے عمدہ اصول ہیں جو اسلام نے دئیے ہیں۔ کاش مسلمان ان پر عمل پیرا ہو
جائیں!
No comments:
Post a Comment